امیر جماعت اسلامی ، جناح اور اقبال : جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

Statement of Sirajulhaq on Jamiat

قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو جمعیت کے رکن ہوتے

امیر جماعت اسلامی سراج الحق

پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے امیر جماعت اسلامی کا بیان بہت تزک و احتشام سے شایع کیا اور کسی چینل نے اپنے آرکائیوز سنٹر کے ڈائریکٹر اور وہآن بیٹھے ریسرچرز کو نہ کہا کہ وہ جماعت اسلامی اور آل انڈیا مسلم ليگ کے درمیان تعلقات کا تاریخی جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ مسٹر محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے جماعت اسلامی کے موسس اعلی سید ابوالاعلی مودودی سے کیسے تعلقات تھے اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی کا مسٹر جناح اور سر اقبال کے سیاسی خیالات بارے کیا رویہ اور نظریہ رہا

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو بھی شاید پتہ ہے کہ ” نئی نسل ” میں سے بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ جماعت اسلامی کے رسائل و جرائد ، اخبارات اور اشاعتی گھروں نے پاکستان بننے کے فوری بعد ہی اور جناح کی وفات کے بعد سے ” قائد اعظم محمد علی جناح ” اور ” علامہ اقبال ” کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش شروع کردی تھی – اگر کسی کے پاس60ء کے پاکستان ٹائمز کی فائل موجود ہوں تو اس میں معروف ترقی پسند دانشور صفدر میر کا ایک سلسلہ مضامین مل سکتا ہے جو انہوں نے ” اقبال اور ان کے پیغام ” کو مسخ کرنے کی ” جماعت اسلامی ” کی کوششوں کے رد میں لکھے تھے اور اسی طرح کے کئی ایک مضمون 60ء میں ہی خود معروف کمیونسٹ دانشور سبط حسن نے لکھے تھے – صفدر میر کے مضامین آغا امیر حسین نے اپنے اشاعت گھر ” کلاسیک لاہور ” سے ” اقبال دی پروگریسو ” کے نام سے شایع کئے اور سید سبط حسن کے مضامین ” دانیال اشاعت گھر کراچی ” سے ” بیٹل آف آئیڈیاز ان پاکستان ” کے نام سے شایع ہوئے تھے

صفدر میر نے 1961ء میں پاکستان ٹائمز لاہور میں ” کلچرل نوٹس ” کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کئے اور وہ قلمی نام ” زینو ” سے یہ کالم لکھ رہے تھے – اور ان دنوں انہوں نے اقبال کے ترقی پسند خیالات کو واضح کرنے کے لئے پے درپے کالم لکھے اور یہ ضرورت ان کو کیوں پیش آئی ، ان کالموں کا مجموعہ جب 1990ء میں شایع ہوا تو انہوں نے اس کے دیباچہ میں خود بتایا

یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زرخیز دور تھا ،خاص طور پر عوامی تنازعات کے حوالے سے – تمام وہ رویے اور سلوک جوکہ آزادی کے پہلے عشرے میں ہماری سماجی اور سیاسی زندگی میں ابھرے سب کے سب اس عشرے میں واضح طور پر نظریاتی رجحانات میں بدل گئے – خاص طور پر ایوب خان کی صدارت کے دور کا درمیان سیاسی ، مذھبی ، ثقافتی ، ادبی اور نظریاتی جدال اور تقسیم کے پھیلاؤ کا دور بن گیا تھا – اس دور میں جہاں اور بہت سے افکار اور شخصیات اس فکری جدال کا موضوع بنیں ، وہیں پر خود علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کے افکار بھی اس کا حصّہ بنے

دی اقبال پروگریسو – صفدر میر ص 1،

صفدر میر نے اپنے دیباچہ میں اقبال کے بارے اس زمانے میں موجود لوگوں کے خیالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ کیسے جب پاکستانی سماج میں سوشلسٹ اور پروگریسو خیالات جڑپکڑرہے تھے اور پاکستانی سماج میں محنت کشوں ، کسانوں اور شہری مڈل کلاس کی ایک بڑی تعداد سوشلسٹ ریڈیکلائزیشن کو قبول کررہی تھی تو پاکستانیوں کی نفسیات کی اس اچانک تبدیلی نے پااکستانی اسٹبلشمنٹ کے دانشوروں کو خوفزدہ کردیا – عوام کے اندر سوشلزم کی مقبولیت کے رد عمل نے اسلامسٹ انٹلیکچوئل  نے جوکہ سماج کے تعلیمی ، صحافتی اور انتظامی سیکٹرز سے تعلق  رکھتے تھے  ، نے مولانا مودودی کے تھیوکریٹک ( مذھبی پیشوائی ) خیالات کو ” اسلام کی معتبر ترین تشریح ” کے طور پر قبول کرلیا – یہ ان کے مقاصد کو پورا کرتا تھا ، کیونکہ مودودیائی آئیڈیالوجی سوشلسٹ مخالف خیالات کا آمیزہ تھی اور ان خیالات کو برطانوی سامراج نے برصغیر میں سوشلزم اور کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لئے “جنگ کے دنوں ” میں پروموٹ کیا تھا اور 65ء کے دور میں جب اشتراکی خیالات پھیلنا شروع ہوئے تو پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے اس آئیڈیالوجی کو ان خیالات کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے انتہائی مفید خیال کیا – صفدر میر کے خیال میں یہ وہ سیاسی –سماجی پس منظر تھا جس میں اقبال کے خیالات کی جگہ مودودی کے خیالات نے لے لی – صفدر میر کہتے ہیں کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ بہت چالاک تھی کہ اس نے اقبال کا نام استعمال کرتے ہوئے مودودی صاحب کی آئیڈیالوجی کو پھیلانا شروع کردیا – صفدر میر کہتے ہیں اس وجہ سے نام نہاد پاکستانی نظریہ ساز اور مودودیائی نظریہ سازوں کا باہمی اتحاد ہوا اور یہ اتحاد اس زمانے ميں سوشلزم کے خلاف تھا

اقبال نے 1937ء میں  جو خطبہ دیا جس میں انہوں نے متحدہ ہندوستان کے اندر برطانوی ہند کی ڈومنین کے اندر رہتے ہوئے مسلم اکثریتی آبادی کے صوبوں کے خودمختار سٹیٹس کی تجویز دی تھی اور اقبال نے اپنے ایک خط میں کہا تھا کہ وہ تقسیم ہند کے قائل نہیں ہیں اور جب اقبال کی وفات ہوئی تو اس وقت تک اقبال تقسیم ہند کے قائل نہیں تھے ، اس بات کی تصدیق ان کے بیٹے جسٹس جاوید اقبال نے ” علامہ اقبال ” پر اپنی ضغیم ترین کتاب ” زندہ رود ” میں تفصیل سے کی ہے

جہاں تک قائداعظم محمد علی جناج کا تعلق ہے تو ان کی جانب سے ” مسلم قومیت ” کا جو تصور پیش کیا گیا جس کے بکھرے اجزاء ہمیں ان کی تقاریر اور مراسلوں ، اخباری بیانات میں ملتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ ” مسلم نیشن سٹیٹ ” کا تصور تھا جسے قائداعظم محمد علی جناج نے ہندوستان میں ” کمیونل ایشو ” کے ایک حل کے طور پر پیش کیا تھا اور جناح اس ” حل ” کو ” قران و سنت ” کی طرح حتمی خیال نہ کرتے تھے ، جب 1946ء میں کیبنٹ مشن پلان ” پیش ہوا اورڈھیلے ڈھالے فیڈرل سسٹم کے تحت ہندوستانی فیڈریشن کی تجویز سامنے آئی تو جناج نے اس تجویز کو مان لیا تھا – جواہر لال نہرو جب کانگریس کے صدر بنے تو انہوں نے اعلان کیا کہ کانگریس ہندوستان کی آزادی کے بعد کیبنٹ مشن پلان پر عمل کرنے نہ کرنے میں آزاد ہوگی تو جناح نے اسے نامنظور کرتے ہوئے ” تقسیم ہند ” کو ہی ” کمیونل ایشو ” کا آخری حل بتایا – یہ سب تاریخ کا حصّہ ہے – اس زمانے میں جماعت اسلامی ہند اور اس کے بانی سید ابوالاعلی مودودی کی پوزیشن اور موقف اس ایشو پر کیا تھا ،اس کے لئے ترجمان القرآن کی 40ء کی دھائی کی فائلوں کا مطالعہ کرنا ہوگا ، میں جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے ” ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی کش مکش ” اور : مسلم قومیت ” کے نام سے کئی تبدیلیوں سے گزرنے والی کتابوں کے جدید ایڈیشن کو پڑھنے کا مشورہ اس لئے نہیں دوں گا کہ ان میں بہت ردوبدل ہوچکا ہے

سید ابوالاعلی مودودی نے ایک طرف تو جمعیت العلمائے ہند سمیت متحدہ ہندوستان کے حامیوں کے ” ہندوستانی نیشنلزم ” کو رد کیا تھا تو دوسری طرف انہوں نے خود قائداعظم محمد علی جناح کے تصور مسلم قومیت کو بھی رد کرڈالا تھا – جناح ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک قوم قرار دے رہے تھے اور ان سب کے لئے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کررہے تھے اور اس ریاست کی واضح حدود اور جغرافیہ تھا جس میں پورا پنجاب ، پورا بنگال ، سندھ ، بلوچستان اور مسلم اکثریتی آبادی کی ریاستیں شامل تھیں بشمول کشمیر اور یہ ہی ” پاکستانی قومیت ” کی تشکیل کرتی تھیں جس میں ان علاقوں کے ہندؤ ، مسیحی ، سکھ بھی شامل ہونے تھے – یہاں تک جناح نے حسین شہید سہروردی کو کہا کہ اگر ” متحدہ بنگال ” الگ ریاست اور ملک کے طور پر سامنے آئے تو ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا – اس تصور پاکستان اور اس تصور قوم کا جماعت اسلامی کے بانی کے تصور اسلامی ریاست اور تصور قوم سے کوئی لینا دینا نہیں تھا – سید ابوالاعلی مودودی آل اںڈیا مسلم لیگ کے سیاسی خیالات اور تصور ریاست کو قرآن اور سنت کے تصورات کے خلاف خیال کرتے تھے اور ان کو وہ مغربی خیالات سے مستعار بتلاتے تھے – انہوں نے اپنے ترجمان القرآن کے ایک اداريے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا

لیگ کے بڑے قائد سے لیکر چھوٹے مقتدی تک سب کی ذھنیت ” غیر اسلامی ” ہے

بانی جماعت اسلامی کے نزدیک آل انڈیا مسلم لیگ کی ” علی گڑھ اور دیگر جدید تعلیمی اداروں ” سے تعلیم یافتہ قیادت بشمول مرد و خواتین ” صالحین ” نہ تھے اور وہ قیادت کے قائل نہ تھے اور سید مودودی کے ںزدیک ” اسلامی تصور امامت و قیادت ” کو ایک ملک کے قیام اور اس کی حدود کے اندر تک محدود کرنا انتہائی زیادتی تھی اور یہ ” خدائی حکومت ” کے تصور کے برخلاف بات تھی اور انہی خیالات کی بنیاد پر سید مودودی اور ان کی جماعت ” جماعت اسلامی ہند ” نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی مخالفت کی اور انہوں نے ” کانگریس ” کے جھنڈے تلے ” ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی نیشنلسٹ بنیادوں ” کی بھی مخالفت کی اور اس ضمن میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے شیخ الاسلام اور جمعیت العلمائے ہند کے صدر سید حسین احمد مدنی کے ” وطنیت پر مبنی تصور قوم ” کی مخالفت بھی کی

سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے نجانے کس لہر میں اقبال اور جناح کو اگر وہ زندہ ہوتے تو ” جماعت اسلامی ” میں شمولیت کرنے کا دعوی کیا مگر میں ریکارڑ کی درستی کے لئے بتاتا چلوں کہ جناج نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی کابینہ کا جو انتخاب کیا تھا وہ جماعت اسلامی کے بانی کے تصورات سے بالکل الگ تھا – جناح کے پہلے وزیر قانون ” دلت ” ہندؤ جوگندرناتھ منڈل تھے ، وہ دستور ساز اسمبلی میں پہلے گورنر جنرل تھے ، ان کے وزیرخارجہ ” سرظفراللہ ” تھے – یہ سب اس ” اسلامی ریاست ” کے خانے میں کہیں فٹ نہ ہوتے تھے جس کا پرچار جماعت اسلامی کرتی ہے اور جس کے خدوخال سید ابوالاعلی مودودی کی کتب میں موجود ہے – آج کی جماعت اسلامی تو ماضی کی نظریاتی جماعت اسلامی سے بہت مختلف اور ” پاور پالیٹکس ” کی خاطر موقعہ پرستی کی دلدل میں دھنسی نظرآتی ہے اور سرمایہ کی پوجا میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی کے پرانے رفقاء تو اب ” مقدس پتھر ” خیال کئے جاتے ہیں اور جماعت اسلامی پر ” لیاقت بلوچ ، سراج الحق جیسے انتہائی ” بلند عزائم ” رکھنے والوں کا غلبہ ہے –جبکہ جماعت اسلامی کا جو خیبرپختون خوا ، بلوچستان ، فاٹا اور پنجاب کا اکثر نوجوان خون ہے وہ داعش و القائدہ سے متاثر ہے اور وہ اپنی قیادت کی ” پارلیمانی سیاست ” سے بغاوت کررہا ہے اور وہ جماعت اسلامی کے ” جہاد افغانستان و جہاد کشمیر ” کے پروجیکٹ پر قلابازیوں بارے سوال بھی اٹھاتا رہتا ہے – جماعت اسلامی کے نوجوانوں کی مذھبی اورئنٹیشن بارے جاننے کی خواہش ہو تو کراچی یونورسٹی ، جامعہ پنجاب اور حامعہ پشاور میں اسلامی جمعیت طلباء سے وابستہ اراکین کے ساتھ تبادلہ خیال کافی ہوگا اور سوشل میڈیا پر اس تنظیم سے وابستہ نوجوانوں کے اندر ” داعش ، القائدہ ، طالبان ، باکو حرام ” سے پائی جانے والی ہمدردیوں اور ” یمن ، عراق اور شام ” بارے ان کے خیالات پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے –جماعت اسلامی ترکی کی ” جسٹس پارٹی ” اور طیب اردوغان کو اپنا نظریاتی ساتھی قرار دیتی ہے اور جماعت اسلامی پنجاب کفے رہنماء نے ترکی طیب اردوغان کی جیت کو ” اسلام پسندوں ” کی جیت قرار دیا ہے – طیب اردوغان کا معاشی ماڈل وہی ہے جس کا نفاذ ” میاں محمد نواز شریف ” پاکستان میں کررہے ہیں جبکہ اس کا سیاسی نظام بدترین ” سیاسی آمریت ” پر مشتمل ہے – کیا جناح اور اقبال کے معاشی و سیاسی خیالات ” اردوغان ” کے تصورات کے مطابق تھے – اردوغان ” ترکی ” کو قدیم ” عثمانی سلطنت ” کا جدید ایڈیشن بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ اقبال کے سیاسی و معاشی نظریات کا مطالعہ کرنے کے لئے اقبال کی عمر کے آخری سال شایع ہونے والے ان کے خطبات کا مجموعہ ” ری کنسٹرکشن آف ریلجس تھاٹ ان اسلام ” ہی کافی ہوگا – سید مودودی اور ان کے جملہ شاگردوں کے لئے ان کی یہ کتاب ” ہمیشہ ایک بڑے چیلنج ” کے طور پر موجود رہی ہے – جناج اور اقبال کے تقسیم ہند اور تقسیم ہند کے بعد ” سچے اور ایماندار عاشق سکالرز ” نے ہمیشہ ان دونوں کے افکار کو ” مودودیائے جانے ” کی انتہآئی علمی اور فکری مخالفت کی – پروفیسر محمد سرور  ، پروفیسر یوسف گورایا ، کنیز فاطمہ ، ڈاکٹر رشید جالندھری سابق صدر ادارہ ثقافت اسلامیہ ، پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمان ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ان میں ہی شامل تھے – بلکہ مولانا احمد علی لاہوری سمیت علماء کی ایک بڑی تعداد بھی ” مودودی نظریہ سازوں ” کی تدلیس و تلبیس بارے بہت کچھ لکھتے رہے – مجھے ” نو اخوانیت ، نو مودودیت ” بارے کچھ اور بھی لکھنے کی خواہش تھی لیکن پہلے ہی کالم دو ہزار الفاظ سے 216 الفاظ تک چلا گیا ہے

Leave a comment