کرنوں کے سوداگر اور تاریکیوں کی پوجا

abu-muhammed-al-adnani

خیبرپختون خوا کے دارالحکومت پشاور اور ایک اہم ضلع مردان کی کورٹ کہچری میں خودکش بمباروں نے حملہ کیا اور پشاور میں ای

شہری اور مردان میں 12 لوگ دو وکلاء سمیت مارے گئے –حملے کی زمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کرلی-پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سول ہسپتال میں ہوئے خودکش بم دھماکے کی زمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی-جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان ، پشاور اور کراچی میں شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ٹارگٹ کلنگ کی زمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی-

جماعت الاحرار کے نام سے وجود میں آنے والی یہ دیوبندی مکتبہ فکر کی تکفیری خارجی تنظیم اگست 2014ء میں مہمند ایجنسی میں موجود تحریک طالبان پاکستان کی شاخ کے تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے کے اعلان کے بعد وجود میں آئی اور اس وقت اس کا نام ” حماعت الاحرار الہند ” رکھا گیا-اور اس کی قیادت مولوی محمد عمر قاسمی دیوبندی کررہا تھا جو کہ لشکر جھنگوی العالمی کا سربراہ بھی بتایا جاتا تھا-مولوی عمر قاسمی سپاہ صحابہ پاکستان کی رکنیت کے زریعے سے لائم لائٹ میں آیا تھا اور اسے عمر خالد  خراسانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے- خراسانی  الاحرار میں بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان کے سابق مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان سمیت کئی اہم سرکردہ تکفیری فاشسٹ دہشت گرد شامل ہوگئے-جماعت الاحرار کے اڈے خیبر ایجنسی ، مومند ایجنسی ، افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ پائے جانے والے علاقوں میں بتلائے جاتے ہیں جبکہ اس جماعت کے سہولت کار اور انٹیلی جنس نیٹ ورک پورے پاکستان کے اندر پھیلا ہوا ہے-ستمبر 2014ء میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملّا فضل اللہ نے جماعت الاحرار کو تحریک طالبان سے خارج قرار دے ڈالا اور پھر مارچ 2015ء میں یہ خبر آئی کہ جماعت الاحرار نے دوبارہ تحریک طالبان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا ہے لیکن ابتک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ جماعت الاحرار کے اس الحاق کے اعلان کا مطلب تحریک طالبان افغانستان سے الحاق تھا یا ٹی ٹی پی سے الحاق کا اعلان تھا-جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے مارچ 2015ء میں داعش خراسان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد میڈیا کو جاری کی جانے والی ایک ای-میل میں بتایا تھا کہ جماعت الاحرار کو شاہد اللہ شاہد کی ہلاکت پہ شدید دکھ ہے اور ان کی تنظیم تحریک طالبان افغانستان اور اسلامک سٹیٹ خراسان کے درمیان ننگرہار افغانستان میں چل رہی خانہ جنگی کو بند کرانے اور مختلف جہادی دھڑوں کے درمیان اختلافات ختم کرانے کی کوشش کررہی ہے-جماعت الاحرار کی جانب سے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی سے بیعت کا اعلان بھی سامنے آیا تھا –جماعت الاحرار ہند نے ابتک زیادہ تر کاروائیاں پاکستان کے اندر کی ہیں اور اس جماعت نے پاکستان کے چاروں صوبوں ، چھے قبائلی ایجنسیوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کا اعتراف کیا ہے جس میں گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے موقعہ پہ کیا جانے والا خودکش بم دھماکہ، کوئٹہ سول ہسپتال میں دھماکہ ، مردان میں بم دھماکہ سب سے خوفناک کاروائیاں ہیں-

جماعت الاحرار کی ویب سائٹ پہ جاکر یہ پتہ چلتا ہے کہ اس تنظیم کے لنک ایک طرف تو داعش کے نام سے سرگرم پاکستان اور افغانستان میں رہشت گردوں سے ہیں جبکہ تحریک طالبان افغانستان و تحریک طالبان پاکستان کے دیگر دھڑوں سے بھی اس کے تعلقات اور باہمی تعاون کا سراغ ملتا ہے اور کالعدم اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان کے ڈیتھ اسکواڈ لشکر جھنگوی سے بھی اس کے تعلقات بہت مضبوط نظر آتے ہیں –کراچی سٹی ٹی ڈی ، سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے یہ دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ القاعدہ برصغیر ہند کے نام سے کراچی میں سرگرم گروہ کے لنک بھی جماعت الاحرار کے ساتھ پائے گئے ہيں-پاکستانی سیکورٹی فورسز ، انٹیلی جنس ایجنسیز ان سب دھڑوں کے خلاف آپریشن کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے اندر کاروائیاں کرتے ہیں-اور پاک فوج کے ترجمان ادارے

 آئی ایس پی آر ،وفاقی حکومت کے ترجمان ادارے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کئی بار پرہجوم اور پرشکوہ پریس کانفرنسز میں یہ اعلان کیا گیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑی جاچکی ہے-اور ہر بار جب بھی ایسا اعلان حکومت یا عسکری اداروں کی جانب سے سامنے آیا تو کچھ دن بعد ہی دہشت گردی کی بڑی واردات نے ایسے اعلانات پہ بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا-

جمعرات کے دن یکم اگست 2016ء کو پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل عاصم باجوہ نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی اور اس پریس کانفرنس میں انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کئے گئے ابتک کے اقدامات پہ روشنی ڈالی اور اس حوالے سے سکرین پہ رنگا رنگ پریزینٹشن بھی پیش کی –اور انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ابتک دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن میں نو ہزار دہشت گردوں کو مارا گیا ہے-اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے داعش کا سارا نیٹ ورک ختم کردیا گیا ہے-لیکن ان کے اس دعوے کی زمینی حقائق تصدیق کرنے سے قاصر ہیں-پاکستان کے اندر اس وقت جتنے بھی دہشت گرد مختلف ناموں سے کام کررہے ہیں ایک تو ان کے درمیان امتیازی لیکر کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پہ ختم ہوتی ہے ؟ اس کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہے-ایک تںطیم کے دہشت گرد کہاں جماعت الاحرار کی شناخت رکھتے ہیں اور کہاں وہ لشکر جھنگوی ہوجاتے ہیں ، کہاں القاعدہ برصغیر ہند کراچی اور کہاں داعش ہوجاتے ہیں اس کا تعین کرنا بھی انتہائی مشکل ہے-پاکستانی ریاست آفیشل سطح پہ اور خود فوج کا ترجمان ادارہ آفیشل سطح پہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آئیڈیالوجی کے اعتبار سے تحریک طالبان (افغانستان و پاکستان ) ، جماعت الاحرار ، القاعدہ برصغیر ، داعش ، کشمیری جہادی گروپ جیش محمد ، لشکر طیبہ ، حقانی نیٹ ورک ،اہلسنت والجماعت دیوبندی ، لشکر جھنگوی ، لال مجسد نیٹ ورک ، جماعت دعوہ کے درمیان فرق کیا ہے ؟اگر آئیڈیالوجی کے اعتبار سے یہ یہ سب تنظیمیں ایک ہیں تو پھر  اہلسنت والجماعت جوکہ کالعدم تنظیم بھی ہے اور جماعت دعوہ جس ک سربراہ لشکر طیبہ کا بانی حافظ سعید ہے (نیکٹا کی ویب سائٹ پہ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کا بانی حافظ سعید ہی درج ہے) جو اقوام متحدہ کی دہشت گرد تنظیموں کی واچ لسٹ میں شامل ہے کو پاکستان کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت کیوں ہے؟

 “There has been lots of action on the ground against his incitement to violence. People have been caught and action taken… Everything is before you,”

“وائلنس پہ اکسانے والے لوگوں کے خلاف بہت زیادہ ایکشن لیا گیا ہے-لوگوں کو پکڑا گیا اور ایکشن لیا گیا-ہر چیز آپ کے سامنے ہے “

سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا جماعت دعوہ اور اہلسنت والجماعت لوگوں کو تشدد اور دہشت گردی پہ اکسانے کا کام نہیں کررہیں ؟ کیا اہلسنت والجماعت دیوبندی پاکستان بھر میں شیعہ کے خلاف نفرت پھیلانے ، ان کے خلاف رہشت گردی پہ اکسانے کا فریضہ سرانجام نہیں دے رہیں ؟اور حافظ سعید کی تنظیم سرحد پار جاکر افغانستان اور بھارت میں نام نہاد جہاد کرنے کے لئے لوگوں کو بندوق اٹھانے کی ترغیب نہیں دے رہا-پنجاب کے دیہاتوں اور شہروں میں آج بھی حافظ سعید کشمیر میں مارے جانے والے مجاہدوں کے غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے آتا ہے-یہ مجاہدین کب اور کیسے پاکستانی ہوتے ہوئے کشمیر جاپہنچے اور ان کو عسکری تربیت کہاں دی جارہی ہے؟آج جن تنظیموں اور افراد سے پاکستانی سیکورٹی فورسز لڑ رہ ہیں اور جن 9 ہزار دہشت گردوں کو مار دینے کا اعلان عاصم باجوہ نے کیا کیا ان کی جڑیں اسی ” جہادی پراکسی ” میں پیوست نہیں ہیں جسے 80ء کی دھائی میں خود پاکستانی ریاست نے امریکیوں اور سعودیوں کے تعاون سے شروع کیا تھا؟اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جس ” جہادی پراکسی تںطیموں ” کو پاکستانی ریاست نے ” کنٹرولڈ پراکسی ” قرار دے رکھا ہے ، اس میں سے لوگ ٹوٹ کر

“بے قابو پراکسیز ” میں نہیں شامل ہوجائیں گے-جبکہ ایسے شواہد سامنے آچکے کہ جماعت دعوہ سے کئی لوگ ٹوٹ کر داعش ، القاعدہ برصغیر اور تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہوگئے-جماعت اسلامی ، اسلامی جمعیت طلباء ، جے یو آئی سے بھی لوگ ٹوٹ کر تکفیری اور پاکستان مخالف جہادیوں کے ساتھ شامل ہوئے-

ملٹری اسٹبلشمنٹ اور پاکستان کی مہان ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس – آئی ایس آئی کے بارے میں پاکستان اور پاکستان سے باہر اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ افغانستان اور بھارت کے اندر پراکسی وار لڑنے کے لئے دیوبندی اور سلفی وہابی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی کئی تنظیموں کو  جہادیوں کی بھرتی کے لئے استعمال کرتی ہیں-لشکر طیبہ / جماعت دعوہ ، جیش محمد کے بارے میں دوسری رائے نہیں ہے کہ یہ پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پراکسی ہیں –اور حال ہی میں اہلسنت والجماعت جس کی قیادت مولوی محمد احمد لدھیانوی و اورنگ زیب فاروقی کررہے ہیں کا نئے سرے سے ابھار اور ان کے ہاں جنرل راحیل شریف کی تصویروں کے ساتھ کی جانے والی ریلیاں اور اس کی مرکزی وصبائی قیادت کی جیلوں سے رہائی ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اس تنطیم کو اپنے لئے ایک فائدہ مند خیال کررہی ہے اور اس لئے بظاہر اس تںطیم کی قیادت اپنے آپ کو تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار ، لشکر جھنگوی ، القاعدہ برصغیر ہند سے فاصلے پہ دکھارہی ہے لیکن شیعہ ٹارگٹ کلنگ ہو کہ کرسچن پہ حملے یا بریلوی مکتبہ فکر کے علماء و جلوسوں پہ حملے ، مزارات کی تباہی وہ اس سے اپنے آپ کو الگ نہیں دکھاتے اور شیعہ کی تکفیر کی منظم مہم ان کے ہاں بدستور جاری و ساری ہے-

یہان یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کی وفاق میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ –نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جنھوں نے مشرف کودتا سے پہلے بھارت سے امن پروسس شروع کیا تھا اور اس حوالے سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ان سے شدید اختلافات پیدا ہوئے تھے برسراقتدار آنے کے بعد مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور مودی کے پاکستان میں رائے ونڈ آمد کے بعد سے امن پروسس بارے کوئی بڑا اقدام اٹھانے کے حق میں نظر نہیں آئے اور بتدریج فوجی اسٹبلشمنٹ کی سوچ سے ان کی مطابقت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے-ان کا جو لبرل، اینٹی اسٹبلشمنٹ امیج پاکستانی لبرلز کے ایک سیکشن نے بنانے کی کوشش کی (باوجود ان کی جماعت کے اہلسنت والجماعت –دیوبندی سمیت دیوبندی ، سلفی مذہبی سیاسی جماعتوں (تبلیغی جماعت اور جماعت دعوہ سے ) سے ان کی قربت اور اتحاد کے اور سعودی عرب کے وہابی شاہی خاندان کے ساتھ ان کے وینچر اور ترکی کے طیب رجب اردوان سے ان کے اشتراک کے)اس امیج کو برقرار رکھنا اب ممکن نظر نہیں آرہا ہے-جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان آرمی سعودی عرب کے تزویراتی و دفاعی اشتراک بنانے کے پروگرام سے دور نہیں ہوئی اور پاکستان کی سویلین و ملٹری قیادت کا سعودی عرب کے باب میں کوئی اختلاف اس وقت نظر نہیں آرہا-حال میں نوجوان سعودی وزیردفاع و ولی عہد کا اچانک دورہ پاکستان بھی کم اہم نہیں تھا جبکہ سعودی عرب میں مڈل ایسٹ میں تیزی سے اپنے خلاف بڑھتے ہوئی فضا اور یمن کی جنگ کے گلے کا پھندہ بن جانے کی وجہ سے خاصا پریشان نظر آتا ہے-میاں نواز شریف کو امریکی نواز ایک بڑا لبرل سیکشن اینٹی اسٹبلشمنٹ اور امریکہ کو بھانے والا لبرل ازم کا دلدادہ بناکر جو پیش کررہا تھا اس میں بڑی خرابی کا سبب پاک-چین اکنامک کوریڈور بھی ہے اور فوج کو سی پیک کے حوالے سے ایک بڑا اور اہم کردار دلوانے میں چینی حکام نے بڑا کردار ادا کیا ہے اور میاں نواز شریف اس معاملے میں کوئی بڑی مزاحمت دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئے-وزارت دفاع کا وفاقی سیکرٹری ایک مرتبہ پھر سابقہ فوجی فور سٹار جنرل ہے-جبکہ نواز شریف کے سیکورٹی ایڈوائزر سابق کور کمانڈر کوئٹہ ہیں –ایسے میں کشمیر ، افغانستان اور بلوچستان کے حوالے سے نواز شریف کا فوجی اسٹبلشمنٹ کی سوچ سے ہٹ کر کوئی اقدام اٹھانا ممکن نظر نہیں آرہا ہے اور یہ نجم سیٹھی ، طلعت حسین سمیت نواز شریف کے لبرل امیج بلڈنگ کے زمہ دار جغادری صحافیوں کے لئے کافی سبکی کی بات ہے-سی پیک پہ نواز شریف حکومت کے پشتون و بلوچ قوم پرست اتحادی بھی  ملٹری اسٹبلشمنٹ سے مکمل جنگ سے بہت پرے نظر آتے ہیں –

یہاں پہ ہمیں زرا ٹھہرکر یہ سوال کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان میں سعودیزائشن ، دیوبندائزیشن اور پاکستان کے اربن علاقوں میں شیعہ ، بریلوی ، احمدی ، کرسچن  کی مارجنلائزیشن کا جو پروسس شروع ہوا تھا کیا پاکستان کی سویلین و ملٹری قیادت اسے ریورس گئیر لگانے کی میں سنجیدہ ہے ؟ کیا یہ قیادت اس پروسس کی بنیاد آئیڈیالوجی پہ کوئی کاری ضرب لگانے کو تیار ہے؟اس کا جواب نفی میں ہے؟اسی سوال سے جڑا ایک سوال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا پاکستانی ریاست سرمایہ دارانہ ترقی کے اس ماڈل کو پلٹانے کو تیار ہے جس نے اس ملک میں سرائیکیوں ، سندھیوں ، بلوچوں ، پشتونوں ، گلگت بلتستانیوں کو شودروں میں بدلنے اور اردو بولنے والی ایک بڑی آبادی کو انڈرمائن کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے-

افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی آج بھی ریاستی آئیڈیالوجی خارج کرنے پہ زیادہ اور شامل کرنے سے گريز پہ مشتمل ہے اور اس آئیڈیالوجی کے تشکیل کنندہ کے اندر سعودی وہابی آئیڈیالوجی اور ریڈیکل دیوبندی ازم سے گہری محبت پائی جاتی ہے-پاکستانیت کا مطلب کئی اور شناختوں ، ثقافتوں اور قومی حقوق و وسائل کا قتلام ہے-اور اس رجحان کی نشاندہی اور اس پہ تنقید کا مطلب ملک دشمنی و غداری ہے-

 

Leave a comment