درگاہ شاہ نورانی پہ حملہ :تکفیری فاشزم بے چہرہ نہیں

%d8%a8%d9%84%d8%a7%d9%84-%d8%b4%d8%a7%db%81-%d9%86%d9%88%d8%b1%d8%a7%d9%86%db%8c

ہ

 زائرین دھمال ڈالنے میں مصروف تھے جب ایک بم دھماکہ ہوا اور اب تک اس دھماکے میں 55 افراد سے زائد لوگ شہید ہوگئے ہیں جبکہ 200 افراد سے زائد زخمی ہیں-500 افراد میں عورتیں اور بچّے بھی شامل تھے-یہ درگاہ ویسے تو ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کی مرکز عقیدت ہے لیکن اس درگاہ کا انتظام و انصرام اہلسنت کے پاس ہے اور صوفی سنّی حنفیوں کے طریقے سے اس کے ساتھ ملحق مسجد میں عبادات انجام دی جاتی ہیں

عام طور پہ پاکستان کے اندر جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کا نشانہ اگر تو فوج ، پولیس یا سرکار کی کوئی عمارت ہو تو پاکستان میں دہشت گردوں کی معذرت خواہی کرنے والے اس واقعے کے جواز میں افغانستان ،عراق پہ امریکی حملوں میں ہونے والی بربریت اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد میں شمولیت کو لیکر آجاتے ہیں-اور جب ایسے واقعات میں نشانہ امام بارگاہ، مجلس عزا، عزاداری کے جلوس یا شیعہ کمیونٹی کے پروفیشنل یا علماء ہوں تو اس کے لئے شام ، عراق میں مفروضہ سنّی نسل کشی وغیرہ کو جواز بنایا جاتا ہے یا پھر اس کے لئے جواز ایران-سعودی باہمی جیو پالیٹکس اور ان کی مڈل ایسٹ میں اپنے اپنے پاکٹس محفوظ کرنے کے لئے پراکسی جنگوں میں ڈھوںڈا جاتا ہے-لیکن پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی تشریح یا جواز کے لئے ڈھونڈی جانے والی یہ توجیحات اس وقت ایک بڑا فکری مغالطہ یا جان بوجھ کر اختیار کی جانے والی بدیانتی بن جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس منظم دہشت گردی کی 99 فیصدی وارداتوں میں دیوبندی مکتبہ فکر سے ابھرنے والا تکفیری گروہ ملوث ہے اور اس کا نشانہ صرف ریاستی ادارے، شیعہ ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا نشانہ اس ملک کی اکثریت صوفی سنّی المعروف بریلوی بھی ہیں-وہ کرسچن، احمدی اور ہندؤں کو بھی نشانہ بناتے ہیں

نومبر کی 12 تاریخ ،2016ء کی شام جب درگاہ شاہ نورانی وڈھ خضدار پہ بم دھماکے میں بڑی تعداد میں صوفی سنّی شہید اور زخمی ہوئے تو اس وقت سوشل میڈیا پہ لبرل بنیاد پرستوں اور دائیں بازو کے دیوبندی، سلفی اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی شناخت چھپانے اور شیعہ کی نسل کشی پہ سعودی-ایران فریم ورک کی گردان کرنے والوں کو چپ لگ گئی اور ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اپنے مفروضوں کو دوھرانے کا-ایسے موقعہ پہ کئی ایک تجزیہ کار جن کی تعداد سوشل میڈیا پہ بھی ابھی کم ہے جبکہ مین سٹریم میڈیا پہ تو ایسے تجزیہ کار سرے سے پائے ہی نہیں جاتے ، بہت ہی برمحل تجزیوں کے ساتھ سامنے آئے-ان میں ایک تجزیہ کار سجاد حسین نے بہت ہی زبردست تجزیہ پیش کیا-ان کا کہنا تھا،

“شاہ نورانی پہ ہوئی خون ریزی ہمیں چار عشروں سے جاری سوشل انجینئرنگ کی یاد دلاتی ہے- اور وہ ہے ” سنّی اعتدال پسندی کی اکثریت پہ مشتمل معاشرے کی تنطیم نو اور اس کے فکری رجحانات کی تبدیلی کا عمل اور اسے دیوبندی تکفیری سیاست سے بدلنے کی کوشش”-گلف عرب ریاستوں خاص طور پہ سعودی عرب سے آنے والا بے ہنگم پیسہ اور شدید قسم کی تبلیغ نے ہزاروں ایسے مدرسوں کو جنم دیا ہے جو دن رات تکفیری دیوبندی ازم کا پرچار کرتے رہتے ہیں-اس دن رات کے تکفیری دیوبندی پرچار نے ایسی نسل ہمارے سامنے لاکھڑی کی ہے جو مذہبی اعتبار سے انتہائی شدت پسند اور متشدد ہے-اور اس طرح کے لوگوں کی ہر جگہ موجودگی نے معاشرے کو مجموعی طور پہ مذہبی اعتبار سے ریڈیکل بناڈالا ہے-یہ مزارات ایسے ريڈیکل ازم کے خلاف بڑی مزاحمت کا مرکز ہیں اور یہاں پہ حاضری اسی مزاحمت کو حیات نو بخشتی رہتی ہے-ان علامتوں کو اسی لئے فکری اعتبار سے بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور عملی طور پہ بھی ان کے خلاف اقدام اٹھائے جاتے ہیں-میں اپنے ان سنّی بھائیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو تمام خطرات کو خاطر میں نہ لاکر بھی اس تکفیری دیوبندی-وہابی حملوں کے خلاف اپنی شناخت کا تحفظ کررہے ہیں”

یہاں پہ مجھے معروف صحافی عارف جمال کا دی نیوز آن سنڈے کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہی گئی بات یاد آرہی ہے-جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا،

“Pakistan is emerging as a Sunni state where it is becoming more and more difficult for non-Deobandi Muslims and other religions to live.”

پاکستان ایک سنّی (دیوبندی ) ریاست بنتا جارہا ہے جہاں پہ غیر دیوبندی مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا رہنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے

اگرچہ عارف جمال اور اس طرح کے کئی اور صحافی جو لبرل لائن رکھتے ہیں ان کے ہاں دیوبندی ازم اور بریلوی ازم کے درمیان فرق سے آگاہی واضح ہے لیکن نجانے کیوں وہ بار بار سنّی ازم یا سنّی ریاست جیسی مبہم اور قدرے کنفوژن پھیلانے والی اصطلاح کیوں استعمال کرتے ہیں؟ پاکستان کو جنرل ضیاء الحق نے سعودی وہابیت سے ہم آہنگ ریڈیکل دیوبندی سٹیٹ میں بدلنے کی کوشش کی اور اسی کوشش نے اس سوشل انجیئنرنگ کو جنم دیا جس کا تذکرہ سجاد حسین نے کیا ہے

ایک سوشل ایکٹوسٹ ماریہ نقوی جو کہ سوشل میڈیا پہ تکفیری فاشزم کے خلاف بہت سرگرم ہیں نے اپنی وال پہ درگاہ شاہ نورانی پہ ہوئے حملے کے تناظر میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا،

” تکفیری وہابی ثقافتی نراجیت (بعد میں توجہ دلانے پہ انہوں نے اسے “تکفیری دیوبندی وہابی فنڈڈ ثقافتی نراجیت ” قرار دینے پہ اتفاق کرلیا )نے ایک بار پھر حملہ کیا ہے-اس مرتبہ یہ حملہ ایک صوفی (سنّی )مزار پہ ہے-یہ پہلی بار ایک مزار کو نشانہ نہیں بنایا گیا – بری امام،سخی سرور،داتا گنج بخش ، عبداللہ شاہ غازی (اور درجنوں مزار ) پہ پہلے ہی حملے ہوچکے ہیں-مزارات ہماری ثقافتی زندگی کا مرکز ہیں-یہ ہمارے طریق پہ حملہ ہے-ہمارے لائف سٹائل پہ حملہ ہے-کرسچن ، احمدی، ہندؤ اور شیعہ کے علاوہ ، مزارات پہ جانے والے صوفی سنّی بریلوی بھی کافر ہیں اور اس لئے ان کو بھی ماردیا جاۓ-اصل میں جو ان کی ظاہریت پسند تعبیر اور سوچ سے اتفاق نہیں کرتا اور اس کی پیروی نہ کرے ،اس قابل ہے کہ مار دیا جائے “

ملک ریاض جو کہ سوشل میڈیا پہ بہت ہی زبردست قسم کے بیانیہ کے حوالے سے مشہور ہیں،انہوں نے اس حوالے سے فیس بک پہ اپنے سٹیٹس میں لکھا،

“اکر کوئی تکفیری فاشزم پہ بات کرتے ہوئے اس کے اہلسنت والجماعت کے داعش سے روابط یا اس کی خاص دیوبندی شناخت کو ظاہر نہیں کرتا تو وہ گول مول ، بددیانت موقف کا حامل ہے-ان دو بنیادی خواص کو اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ سے الگ کرنے والا اور اس کی چار چوفیرے ہر ایک کے لئے نفرت پھیلانے کے پہلو کو نکالنے والا دہشت گردی اور اس کے جملہ حمائتی کو بے چہرہ رکھنے اور اس کے انکار سے چند قدم کے فاصلے پہ ہے-چھپائے جانے کا یہ عمل جھوٹ پہ مبنی ہے-اور پاکستانی ميڈیا ،جوڈیشری ،سیاسی اور سیکورٹی اسٹبلشمنٹ اور اموی لبرل کے کئی حصّے پہلے ہی اہل سنت والجماعت کے خاص کرداری اوصاف ( داعش سے روابط اور دیوبندی شناخت ) کو اپنے بیانیہ اور ڈسکورس میں پہلے ای غائب کرچکے ہیں”

تکفیری فاشزم کے داعش کے ساتھ رشتوں اور اس کے سعودی وہابیت سے ہم آہنگ ریڈیکل دیوبندی ازم سے تعلق ایک ایسی حقیقت ہے جسے جانے بغیر جعلی جانبداری، بیلنس کرنے کی پالیسی ، غلط قسم کی بائنری اور دو متضاد چیزوں کو ایک دوسرے سے ملادینے جیسی فاش غلطی سے نہیں بچا جاسکتا

 

 

Leave a comment